اہلِ سنت کے مطابق احادیثِ مہدویت
تفسیرِ احادیثِ مہدویت

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


وَعَدَ اللهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّالحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الاَرْضِ كَما اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دينَهُمُ الِّذي ارْتَضي لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْناً يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَاٌولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ (النور - 55)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمالِ صالح انجام دیئے اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ بالیقین انہیں زمین پر خلیفہ بنائے گا اسی طرح جس طرح ان کے اجداد کو زمین پر خلافت بخشی اور جس دین و آئین کو اس نے ان کے لیئے پسند کیا اسے محکم اور پائیدار بنائے گا اور ان کے خوف و حزن کو امن و سلامتی میں تبدیل کر دے گا ۔ بشرطے کہ وہ صرف میری پرستش کرتے رہیں، اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں اور جو کوئی اس کے بعد ناشکری کریں تو وہی فاسق ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت 55 میں صریح طور پر صالح مومنین کو خوشخبری سنائی ہے کہ آخر کار روئے زمین پر زمامِ حکومت ان کے ہاتھ ہوگی اور ہر طرف دینِ اسلام پھیل جائے گا اور بدامنی اور خوف، امن وامان میں بدل جائیں گے ، دنیا بھر سے شرک کی بساط لپیٹ دی جائے گی ، اور الله کے بندے آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور سب پرہمیشہ کے لیے اتمامِ حجت ہو جائے گا ۔ حتی کہ اگر اس کے بعد کوئی کفر کا راستہ اختیار کرے گا، فاسق اور گنہ گار ہو گا۔اسی طرح قرآن پاک میں ارشاد ہوا :۔

وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنّ الارْضَ يَرِثُها عِباديَ الصّالِحُونَ (الانبیاء – 105)

اور بے شک ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھا کہ صالح بندے ہی زمین کے وارث بنائے جائیں گے۔

سورہ انبیاء کی یہ آیت (105) اللہ کی یقینی بشارت پر مشتمل ہے اور اس میں خوشخبری ہے کہ لایق (انعام) اور صالح بندے ہی زمین کے وارث او ر مالک ہوں گے ۔ اس آیت میں اس زمانے کی خبر دی گئی ہے جب زمین اور تمام براعظموں کا نظم و نسق ان کے تمام علاقے اور معادن کو اللہ تعالیٰ اپنے با استعداد بندوں کے سپرد کر دے گا۔جب کہ دیگر آیات میں بھی یہی وعدہ کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ:

وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (القصص – 5)

ہم نے ارادہ کیا ہے جو لوگ زمین پر کمزور اور خوار کر دیئے گئے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا اور زمین کا وارث بنا دیں ۔

اگرچہ یہ اہم امور جو وعدہِ الہی میں بیان ہوئے ، رسولِ اکرم (ص) کے زمانے اور ان کے بعد کے زمانوں میں ایک وسیع¬تر معانی میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے متعلق تھے۔ وہ زمانہ جب اسلام ، دشمن کے پنجے میں ایسے گرفتار تھا کہ اسے معمولی سی حرکت اور نشونما کی جرات نہ تھی ۔اور مسلمان ہمیشہ خوف اور وحشت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ آخر کارانہوں نے نہ صرف یہ کہ جزیرہ نمائے عرب بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر تصرف حاصل کر لیا۔ اور دشمنوں نے ہر محاذ پر شکست کھائی لیکن اس کے باوجود کہ اسلام کی وہ عالمی حکومت جو تمام دنیا پر چھا جائے گی اور شرک و بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دے گی اور امن و آرام اور آزادی اور توحیدِ خالص کو ہر جگہ برپا کردے گی، وہ خواب ابھی پورا نہیں ہوا ہے!! ۔۔۔ لہذا اس کی محقق ہونے کا انتظار کرنا ہو گا۔ مسلسل روایات کے مطابق یہ امر ( الہی )امام مہدی کے ظہور کے زمانے میں یقیناً پورا ہو گا ۔

امام مہدی کے بارے میں رسولِ خدا (ص) کی احادیث کو اکثر صحابہ نے بیان کیا ہے ۔ وہ احادیث جو مہدی منتظر کے ظہور کے بارے میں رسولِ گرامی ( ص) سے نقل کی گئی ہیں ۔ جو کچھ بھی صحابہ نے رسولِ پاک کے اقوال کو حضرت رسول پر پ وثوق کے پیش نظر بیان کیا ہے ۔ (ان کی گواہی بھی حدیث کا درجہ رکھتی ہے )۔ بہت سی مشہور اسلامی کتب میں اور جو مختلف مسلم فرقوں، اہلِ سنت، اہلِ تشیع کی کتب میں رسولِ پاک کی احادیث کی اصل عبارت جو آئی ہے ۔ بعض قدیم اور مشہور مفکرین اسلام نے بھی امام مہدی کے بارے میں خصوصی کتابیں تحریر کی ہیں ۔ کچھ قدیم اور بعد کے اکابر و دانشمندوں نے بھی اپنی تحریروں میں صریحاً بیان کیا ہے کہ حضرتِ مہدی کے بارے میں احادیث متواتر ہیں اور ہر اعتبار سے نا قابلِ انکار ہیں ۔

صحاحِ ستہ: حدیث کی چھ صحیح کتب ،اہلِ سنت کی نظر میں سب سے زیادہ معتبر کتابیں ہیں جو اہلِ سنت کے نزدیک قرآن کے بعد اہم ترین دینی مآخذ ہیں ۔علمائےاہلِ سنت ہمیشہ ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں ۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں :

  • صحیح بخاری
  • صحیح مسلم
  • سنن ابن داؤد
  • سنن ترمذی
  • سنن نسائی
  • سنن ابنِ ماجہ

صحاحِ ستہ میں ہمیں احادیث کے دو گروہ ملتے ہیں، جن میں سے ایک گروہ کی احادیث وہ ہیں جن میں مہدویت کے موضوع پر کلی طور پر بات کی گوی ہے ۔ دوسری نوع کی وہ خاص احادیث ہیں جن میں صرف مہدویت کے موضوع پر بات کی گئی ہے ۔ تفاسیر میں ہم پہلے صحاح کی ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں عام طور پر مہدویت کی جانب اشارہ دیا گیا ہے ۔ بعد میں ان احادیث کا مطالعہ کریں گے جو خصوصاً حضرت مہدی کے بارے میں ہیں ۔

صحاحِ ستہ میں مہدویت کے بارے میں عمومی احادیث
حدیثِ ثقلین

حدیثِ ثقلین ان احادیث میں شامل ہے جو تمام اسلامی فرقوں میں قابلِ قبول ہیں ۔ یہ حدیث معتبر ترین کتبِ حدیث میں بیان کی گئی ہے ۔ تقریباً 43 صحابہ رسول نے اس حدیث کا نقل کیا ہے اور شروع سے اب تک اکثر منابع میں اس کا ذکر آیا ہے ۔ روایات میں عبارت کا فرق ہے لیکن حدیث کا اصل مفہوم ایک ہی موضوع کے گرد گھومتا ہے اور وہ یہ کہ رسولِ پاک(ص) نے وصیت فرمائی کہ ملت اسلامیہ قیامت تک ثقلین سے ناطہ جوڑے رکھیں اور اس طرح وہ کبھی گمراہ نہ ہوں گے ۔

حدیث کا متن

  • ۔ مسلم اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں :

    قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ و وَعَظَ و ذَكَّرَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ و أَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى و النُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَ اسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَ رَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ و أَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي

    (صحيح مسلم الحديث رقم 2408)

    ایک دن اللہ کے رسول(ص) مکہ و مدینہ کے درمیان واقع "خم" نامی تالاب کے کنارے پر حاضرین کے سامنے خطاب فرمایا ۔حمد و ثنائے ربِ جلیل اور نصیحتوں اور ذکر کے بعد فرمایا: " اے لوگو بے شک میں ایک بشر ہوں اور بہت جلد اللہ کی طرف سے پیک اجل آنے والا ہے اور میری جان لینے والا ہے اور میں بھی اس کی دعوت قبول کروں گا، میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔اول کتابِ الہی اسے مضبوطی سے تھام لو ، اللہ کے نبی نے کلام ِالہی کی بہت زیادہ تأکید فرمائی ہے کہ لوگوں کو اس پر عمل کرتے رہنا چاہیئے ۔۔ ۔ پھر فرمایا! اور میرے اہلِ بیت، میں تمہیں اپنے اہلِبیت کے حق میں تأکید کرتا ہوں اور یہ جملہ انہوں نے تین بار دُھرایا ۔

  • ۔ ترمذی نے اپنے حوالے کی رو سے نقل کیا ہے کہ رسولِ خدا نے فرمایا :

    إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنْ الْآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنْ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا

    (سنن الترمذي الحديث رقم 3788)

    میں تم لوگوں کے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔جب تم ان سے تمسک اختیار کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ان میں سے ایک سے بڑھ کر ایک ہے ۔کتابِ خداجو آسمان سے زمین تک پہنچنے والی اس کی رسی ہے، اور میرے عترت، اہلِ بیت ۔ ۔ یہ دونوں ( ایک دوسرے سے) کبھی جدا نہ ہوں گے ۔یہاں تک کہ جنت میں حوض کنارے مجھ سے آن ملیں گے ۔ دیکھو تم میری امانتوں کے ساتھ کیسے سلوک کرتے ہو ۔

حدیثِ ثقلین سے قابلِ استفادہ نکات

  • ۔ کتابِ الہی اور عترتِ نبی، رسولِ پاک کے نزدیک سب سے قیمتی ہیں ۔ عربی زبان میں " ثقلین " مادہ " ثقل " سے مشتق ہے یعنی توشہِ راہ ۔ھر قیمتی چیز کو حفاظت اور نگہداشت کی ضرورت ہے ۔اللہ کی کتاب اور نبی کی عترت کو ثقلین کا نام مقرر فرمایا تاکہ ان دونوں کی قدر و منزلت اور عظمت کو واضح فرمائیں ۔
  • ۔ ہدایت اور خوش بختی اللہ کی کتاب اور عترتِ پیامبر کے چھتنار سائے میں میسر ہے ۔ترمذی کے مطابق رسولِ اکرم(ص)نے فرمایا : " ان دو چیزوں کو تھام لو ھر گز گمراہ نہیں ہو گے ۔"
  • ۔ پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا " حتی کہ جنت میں حوض کنارے مجھ سے آن ملیں گے ۔اور " دیکھیئے تم کیسے میری امانتوں کے ساتھ کیسے سلوک کرتے ہو ۔" ۔ ۔ ۔ ان دونوں عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو ہدایت ان دونوں سے تمسک کر کے ملے گی ۔ یہ نہیں کہ قرآن کو تھام لیں اور عترت کا دامن چھوڑ دیں ۔
  • ۔ سنن ترمذی میں آیا ہے کہ رسولِ پاک (ص) نے فرمایا ! " یہ دونوں الگ نہ ہوں گے حتی کہ بہشت میں حوض کنارے مجھ سے آن ملیں ، یعنی قرآن اور عترت قیامت تک باقی رہیں گے ۔ فرض کریں قرآن ہو اور عترت نہ ہو ، گویا ہم ان دونوں میں فرق و جدائی کے قائل ہیں ۔ لہذا جیسا کہ قرآنِ کریم ہمارے پاس موجود ہے اور باقی ہے ، عترت و اہلِ بیت ِنبی بھی موجود و باقی رہنا چاہئے۔
  • ۔ ایک اور نکتہ کہ رسولِ پاک (ص) نے فرمایا " یہ دو، میرے جانشین جو میں تمہارے درمیان چھوڑ رہا ہوں دیکھتا ہوں تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو ؟ اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ نبی پاک(ص)نے اس وصیت میں، قرآن اور اہلِ بیت کو ثقلین کہا ہے ، اپنے بعد خلیفہ مقرر فرمایا ہے ۔
  • ۔ اہم ترین نکتہ جو حدیثِ ثقلین سے ملتا ہے، اہلِ بیت ِ پیامبر(ص) کی حجت وعصمت ہے ۔خود پیغمبرِ عالی نے اہلِ بیت کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے ۔جو اس نکتہ کے برحق ہونے کی دلیل ہے ۔ بے شک قرآن وہ کتاب ہے جس میں ذرہ برابر بھی خطا و بطلان نہیں ۔لہذا اس کی مخالفت جائز نہیں ۔ اب رسولِ پاک(ص) نے اپنے اہلِ بیت کو قرآن کے برابر قراردیا اوران دونوں میں قیامت تک (کسی بھی قسم کے) افتراق کے امکان کو رد فرمایا اور امت کے لیے ان دونوں کو ہادی قرار دیا، اور ان سے عدم تمسک کو گمراہی کہاہے ۔ یہی بات ان دو ثقلِ ثقیل (بھاری چیزوں) کے اقتران اور قربت کا ثبوت ہے جن کے لئے عصمت کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں ۔

رسولِ خدا کے فرمان پر غور کریں تو معلوم ہو گا اس بات سے کہ یہ " دونوں ہر گز ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے " سے مراد یہ ہے کہ عترت و قرآن کا آپس میں کوئی فرق و اختلاف نہیں، عترت نے وہی بتایا جو، قرآن نے بیان کیا ہے ۔ کیا اس کا مطلب " عصمت " کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ۔

حدیثِ ثقلین میں اہلِ بیت و عترت

اب یہ دیکھنا ہے کہ رسولِ پاک (ص) نے عترت اور اہلِ بیت کے الفاظ کن کے لیئے استعمال کئے جو قرآن کے مساوی ہیں ۔ یہی سوال آیہ تطہیر(انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیراً احزاب آیت 33 کا کچھ حصہ ) کی تفسیر میں بھی سامنے آتا ہے کہ اہلِبیت کون ہیں؟جن کی وجودی طہارت و جبلی تقدس کا ارادہ ربِ لم یزل نے کر لیا ہے؟

اہلِ بیت ِ رسول سے کون لوگ مراد ہیں؟

اہلِسنت نے بہت سے نظریئے پیش کیئے جن میں سے تین بہت مشہور ہیں ۔

  • بعض کا خیال ہے اہلِ بیت سے مراد رسولِ پاک کی بیویاں ہیں ۔
  • بعض سمجھتے ہیں اہلِ بیت سے مراد رسولِ پاک کی بیویاں اور تمام بنی ہاشم ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ یعنی آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس اس میں شامل ہیں ۔
  • ۔ اہلِ بیت سے مراد خود رسولِ پاک (ص)، علی ،(نبی کے چچا زاد اور داماد )، حضرت فاطمہ (نبی کی بیٹی اور علی کی زوجہ ) اور ( نبی کے نواسے، علی و فاطمہ کے دونوں بیٹے ) حسن و حسین ہیں ۔

اس موضوع پر مبنی بیان بھی ہے جو ہم نے پیغمبر کی زبانی سنا۔موضوع کی حقانیت جاننے کیلئے ہمیں فرمانِ رسول کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، کیا رسولِ پاک(ص) نے خود اہلِ بیت اور ان کے مصداق کا تعارف کروایا ہے؟ خوش قسمتی سے بہت سی احادیث صحیح مسلم اور صحیح ترمذی ہی میں ملتی ہیں ۔رسولِ پاک(ص) نے اپنے کلماتِ مبارک میں اور اپنے عمل سے بھی اپنے اہلِ بیت کو متعارف کروایا ہے ۔

  • ۔ مسلم نے اپنی صحیح میں زوجہِ رسول عائشہ سے نقل کیا ہے :

    خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا

    (صحيح مسلم الحديث رقم 2424)

    رسولِ خدا صبح کے وقت باہر گئے ۔ آپ کے کندھوں پر ایک سیاہ بالوں سے بنی عبا رکھی تھی ۔ اس وقت حسن ابنِ علی آ گئے اور رسول نے انہیں چھپا لیا، پھر حسین(ع) آئے، آپ نے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ پھر حضرت فاطمہ آئیں، آپ نے ان کو بھی عبا کے دامن میں لے لیا ۔ پھر حضرت علی تشریف لائے انہیں بھی اسی عبا کے اندر جگہ دی ۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرً۔۔۔۔اللہ تعالی چاہتا ہے اے اہلِ بیت تم سے ناپاکیوں کو دور کر دےاور تمہیں پاک کر دے

  • مسلم نے اپنی صحیح میں فضائلِ صحابہ کے باب میں ( آلِ عمران 61) آیت شریفہ مباھلہ کے ذیل میں سعد بن ابی وقاص سے ایک حدیث نقل کی ہے :

    لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا و َأَبْنَاءَكُمْ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي

    (صحيح مسلم الحديث رقم 2404)

    جب یہ آیت نازل ہوئی " فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا و َأَبْنَاءَكُمْ... آئیے ہم اپنی اولادوں کو بلائیں اور تم اپنی اولادوں کو بلاؤ۔۔۔۔نبی اکرم(ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا، بارِ الٰہی بلاشبہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔

  • ۔ آیہ تطہیر (سورہِ احزاب 33) کے بارے میں ترمذی نے بیان کیا :

    مَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَ عَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَ أَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَ أَنْتِ عَلَى خَيْرٍ

    (سنن الترمذي الحديث رقم 3205)

    جب رسولِ خدا پر ایک آیت نازل ہوئی "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔۔۔۔۔خدا چاہتا ہے تم اہلِ بیت سے ہر ناپاکی اور گناہ کو دور کر دے ۔ اور تم سب کو یکسر پاک کر دے ۔ آپ(ص) امِ سلمی کے گھر تشریف فرما تھے ۔ آپ(ص) نے حضرت فاطمہ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو بلایا اور اپنی کساکے نیچے اکھٹا کیا ۔ علی جو آپ(ص) کے پیچھے کھڑے تھے، ان کو بھی کسا کے نیچے آ جانے کو کہا۔ پھر فرمایا :یا اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔پس تو ان سے ہر رجس و ناپاکی کو ہٹا دے اور انہیں پاک و پاکیزہ بنا دے ۔اس وقت امِ سلمی نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ آپ نے فرمایا،بے شک تم خیر و نیکی میں اعلی مقام کی حامل ہو (مگر ان میں شامل نہیں ہو) ۔

  • ۔ ترمذی نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے:

    أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ يَقُولُ الصَّلَاةَ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا

    (سنن الترمذي الحديث رقم 3206)

    رسولِ خدا چھ ماہ تک فجر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے حضرت فاطمہ کے دروازے سے گزرتے اور فرماتے " نماز اے اہلِ بیت (انَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔۔۔۔اللہ فقط یہ چاہتا ہے کہ ناپاکی اور گناہ کو تم اہلِ بیت سے دور کرے اور تمہیں مکمل پاک بنا دے ۔) ۔

پس یقینا اہلِ بیتِ پیغمبر کوئی مخصوص افراد ہیں ۔مذکورہ روایات کی بنا پر یہ مسلّم ہے کہ اہلِ بیت نبی وہ لوگ ہیں جو "کسا" کے نیچے، نبی (ص)کے ساتھ تھے ۔ یا واقعہ مباھلہ ( آیت 61 ، سورہ آلِ عمران )میں حاضر تھے علی، فاطمہ، حسن و حسین ۔

عترتِ پیامبر سے مراد کون لوگ ہیں؟

کسی بھی شخص کی عترت اس کے بہت قریبی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے لہذا عترت سے مراد تمام رشتہ دار نہیں ہیں۔ اور یہ کہ نبی اکرم (ص) نے متعدد بار ثقلین کی وضاحت فرمائی ہے اور حدیثِ ِگوھر بار ثقلین میں اپنی عترت اور اہلِ بیت کو قرآن اور اس کے عدل کے مساوی قرار دیا ہے ۔اور دونوں کو قیامت تک قائم و دائم اور ایک دوسرے سے منسلک شمار کیا ہے ۔ یہ تمام باتیں نہایت اہم اور اثرگذار نکات کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جن کو سمجھنے کے لئے نہایت غورو خوض کی ضرورت ہے ۔ ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید رہتی دنیا تک موجود ہے، اہلِ بیت و عترتِ نبی (ص) میں سے بھی کوئی ہے بھی اس کے ہمراہ باقی رہنا چاہیے ۔اور ان دونوں میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی قولِ پیغمبر(ص) کی درستگی کے خلاف ہو گی ۔اسی طرح ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی عدم تمسک، خسارہ اور گمراہی کا باعث ہو گا۔

اہلِ سنت کے کئی محقق اور دانشمند، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور ان کے بیٹوں کو اہلِ بیت سمجھتے ہیں ۔عظیم عالمِ حدیث و فقہ ابنِ حجر اپنی کتاب میں ابوبکر سے روایت کرتے ہیں کہ علی، نبی(ص) کی عترت کا اہم ترین مصداق ہے ۔ابنِ حجر مزید لکھتے ہیں:

عترت وہ اشخاص ہونے چاہئیں کہ جن سے تمسک قیامت تک قابلِ قبول ہو اور وہ اہلِ زمین کے لئے قرآنِ پاک کی مانند موجبِ امن و بقا ہوں ۔ اسی سبب پیغمبرِ اکرم نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے اہلِ بیت سے تمسک اختیار کریں ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ فی زمانہ اہلِ بیت ِ عترتِ رسول کون سا شخص ہے؟

حدیثِ ثقلین میں نبی(ص) کا بیان ایسا سنجیدہ اور درست موضوع ہے، جس کے ذریعے ہر مسلمان کو، ابد تک اہلِ بیت ِ نبی(ص) کو پہچاننا چاہیے تا کہ قرآن اور اہلِ بیت "و لن یفترقا- یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے " کے مصداق بن جائیں۔اب زمانہِ حال میں مصداقِ اہلِ بیت و عترتِ پیغمبر کو تلاش کرنا ہوگا ۔ایک منصف ضمیر انسان نبی اکرم(ص) کی روایات خصوصاً جو صحاحِ ستہ میں موجود ہیں، کے ذریعے جان لے گا کہ نبیِ مقدس حضرت محمد(ص) نے عترت و اہلِ بیت کے صحیح مصادیق کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اہلِ سنت کے بعض دانشمند بھی مانتے ہیں اور صریحاً کہتے ہیں کہ اہلِ بیت نبی(ص) اور آپ کی عترت جو حدیثِ ثقلین میں بیان کی گئی ہے وہی بارہ امام اور آپ کے وہی بارہ خلیفے ہیں جو نبی(ص) کی نسل سے ہیں جس کے بارے میں مربوط احادیث مذکور ہوجائیں گی ۔

نبی اکرم (ص) نے متعدد روایات میں حضرت امام مہدی کو اپنے اہلِ بیت و عترت میں سے قرار دیا ہے ،جو قرآن کی میزان اور صاحبِ عصمت ہیں ۔ گویا رسول ِاکرم(ص)نے تمام تر لوگوں پر اپنی حجت کا مکمل طور پر اظہار فرمایا ہے، کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں کہ زمین عترت و اہلِ بیت ِ نبی (ص) سے خالی رہے۔

سنن ترمذی میں رسولِ خدا سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي

(سنن الترمذي الحديث رقم 2230)

یہ دنیا ختم نہ ہو گی جب تک میرے اہلِ بیت میں سے ایک مرد جس کانام میرے نام پرہوگا، وہ سرزمین عرب پر حکومت کرے گا ۔" ۔

سنن ابو داؤد میں ابنِ سعید خدری سے مروی ہے، رسولِ پاک نے فرمایا :

الْمَهْدِيُّ مِنِّي

(سنن أبي داود الحديث رقم 4285)

مھدی مجھ سے ہے ۔

سنن ابو داؤد میں امِ سلمی سے روایت ہے کہ رسولِ خدا (ص) نے فرمایا :

الْمَهْدِيُّ مِنْ عِتْرَتِي مِن ْوَلَدِ فَاطِمَةَ

(سنن أبي داود الحديث رقم 4284)

مھدی میری عترت اور فاطمہ کی اولاد میں سے ہے ۔

سنن ابنِ ماجہ میں ہے ۔

الْمَهْدِيُّ مِن ْوَلَدِ فَاطِمَةَ

(سنن ابن ماجه الحديث رقم 4086)

مھدی، فاطمہ کے بیٹوں میں سے ہے ۔

بیان شدہ احادیث کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور اہلِ بیت کسی بھی دور میں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے اور ایک کا وجود دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مھدی فاطمہ کے بیٹوں میں سے ہیں ۔اہلِ بیت اور عترتِ رسول میں سے ہیں ۔ اور ثقلین میں سے ایک ہیں جو قرآن کے ہم پلہ ہے ۔اور قرآن کے ہمراہ آُپ(ع) سے تمسک سعادت کا سبب ہو گا۔

بارہ خلیفوں کی حدیث

صحاحِ ستہ کی ایک اور متواتر اور صحیح حدیث اور اہلِ سنت کے دوسرے معتبر منابع میں شامل "بارہ خلفاء کی حدیث" ہے ۔ یہ حدیث متعدد روایات میں رسولِ پاک(ص)سے نقل کی گئی ہے ۔ اس طرح کہ قطعی طور پر اس کا منبع و مصدر نبی اکرم(ص) کی ذاتِ مقدس ہے ۔

صحاح میں روایت کا متن

بخاری میں جابر بن سمرہ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسولِ اکرم(ص) نے فرمایا:

سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ يَكُونُ اثْنَا عَشَرَ أَمِيرًا فَقَالَ كَلِمَةً لَمْ أَسْمَعْهَا فَقَالَ أَبِى إِنَّهُ قَالَ كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ

(صحيح البخاري الحديث رقم 6796)

بے شک 12 امیر آئیں گے ۔ پھر یہ بات میں نے صحیح طور پر نہ سن سکا۔ میرے والد نے کہا کہ نبی(ص) نے فرمایا: وہ سب کے سب قریش سے ہیں ۔

اسی طرح صحیح مسلم میں ہے ۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں :

عن جَابِرِ بن سَمُرَةَ قال: دَخَلْتُ مع أبي على النبي صلى الله عليه وسلم فَسَمِعْتُهُ يقول: إِنَّ هذا الْأَمْرَ لَا يَنْقَضِي حتى يَمْضِيَ فِيهِمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً. قال: ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ خَفِيَ عَلَيَّ قال: فقلت لِأَبِي: ما قال؟ قال: كلهم من قُرَيْشٍ

(صحيح مسلم الحديث رقم 1821)

میں اور میرے والد رسولِ خدا کی خدمت میں گئے ۔ہم نے سنا کہ آنحضرت نے فرمایا : اسلامی خلافت اس وقت تک پوری نہ ہو گی ، جب تک ان کے درمیان بارہ جانشین حکومت نہ کر لیں ۔پھر انہوں نے جو کلام فرمایا وہ میں نے صحیح طور پر نہ سمجھا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آنحضرت نے کیا فرمایا؟میرے والد نے کہا، آپ نے فرمایا: یہ خلفا سب کے سب قریش سے ہیں ۔

یا پھر یہ حدیث:

عن عَامِرِ بن سَعْدِ بن أبي وَقَّاصٍ قال كَتَبْتُ إلى جَابِرِ بن سَمُرَةَ مع غُلَامِي نَافِعٍ أَنْ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ من رسول اللَّهِ صلي الله عليه وآله قال فَكَتَبَ إلي سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله يوم جُمُعَةٍ عَشِيَّةَ رُجِمَ الْأَسْلَمِيُّ يقول: لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حتى تَقُومَ السَّاعَةُ أو يَكُونَ عَلَيْكُمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كلهم من قُرَيْشٍ

(صحيح مسلم الحديث رقم 1822)

عامر بن سعد بن ابی وقاص کا کہنا ہے : میں نے اور میرے غلام نےجابر بن سمرہ کو لکھا کہ انہوں نے جو بات رسول خدا(ص)سے سنی ہے اسے ہمارے لیے لکھ دے ، جابر نے میرے لیے لکھا، جمعہ کی شام جب اسلمی کو سنگسار کیا گیا اس نے رسول(ص)کو کہتے ہوئے سنا: بلاشبہ دین قائم رہے گا حتی کہ قیامت رونما ہوجائے اور تمھارے بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔

صحاح میں بارہ خلیفوں کے بارے میں بیان کی گئی روایات میں سے یہ نکات سامنے آتے ہیں ۔

  • رسولِ خدا کے بعد خلافت بارہ افراد پر منحصر ہے ۔
  • وہ سب رسولِ خدا کے قبیلہ قریش سے ہیں ۔
  • اسلام کی عزت اور اس دین کی سربلندی ان خلفا کے وجود سے مشروط ہے ، یعنی جب ان خلفا میں سے کوئی ایک زندہ ہو، دین اسلام حاکم و قائم ہو گا۔
  • دینِ اسلام مکمل نہ ہو گا، جب تک یہ بارہ خلفاء برسرِ کار آ نہ جائیں ۔
  • ۔ اس روایت کا اہم نکتہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ خلافت متواتر اور مسلسل ہے(ایک کے بعد دوسرے کو منتقل ہونے والی ہے ۔) یہ نکتہ خلیفہ کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے ۔ لغت کی کتابوں میں لفظ خلیفہ کے بارے میں لکھا گیا ہے : فلاں شخص اپنے خاندان میں فلاں کا خلیفہ بنا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی اس کے اہل کے فرائض پورا کرنے کے لئے ارادہ کرے۔ خلیفہ وہ ہے جو اپنے سے پہلے شخص کا جانشین ہو ۔جس کا سبب پہلے خلیفے کی غیبت، موت یا کمزوری ہے۔

بارہ خلفا کا مصداق

یہ ایک آشکار نکتہ ہے کہ رسولِ خدا کا خلیفہ اس شخص پر منطبق ہوتا ہے جو باطنی اعتبار سے تہذیبِ نفس والااوراپنی ذات میں تقوی کا حامل ہو اور ظاہر میں عدل و انصاف قائم کرنے والا ، منکرات سے مقابلہ کرنے اور معروف کو برقرار کرنے والا ہو۔ اگر کوئی خود کو خلیفہ رسولِ خدا جانے لیکن اس کے تمام اعمال و کردار سے فسق و فجور ٹپک رہا ہو تو بے شک وہ نہ صرف یہ کہ وہ رسولِ خدا کا جانشین نہیں بلکہ وہ خلیفہِ شیطان ہے ، کیونکہ خلیفہ کو اپنے سے پہلے شخص ( متخلف علیہ ) کی شخصیت کا پرتو ہونا چاہئے۔

اہلِ سنت کے درمیان ان بارہ خلفا کی نشانیوں کے بارے میں متعدد تعبیریں ملتی ہیں۔ جن میں سے بعض تعبیریں سست اور مشکوک ہیں

ان تعابیر میں سے دو کا ذکر کیا جاتا ہے:

الف : ایک تعبیر یہ ہے کہ یہ بارہ خلفا ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ ، یزید بن معاویہ ، معاویہ بن یزید، مروان بن حکم، عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز پر مشتمل ہیں ۔ جیسا کہ پہلے کہا، گیا : سب سے پہلے تو یہ کہ خلیفہ سے مراد جانشینِ رسولِ خدا ہے ۔ کیا یہ بات قابلِ قبول ہے کہ کوئی شخص خلیفہِ رسول کہلائے اور اس کا عمل کتابِ خدا کے اور سیرتِ و سنت رسول کے منافی ہو؟ دوسرے یہ کہ رسولِ خدا کے ملکوتی کلام میں یہ آیا ہے کہ یہ بارہ افراد اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی قوت کا سبب ہیں ۔ کیا مذکورہ افراد کے زمانے میں ایسا ہوا ہے؟ کیا یہ حدیث یزید بن معاویہ اور اس جیسوں پر صادق آتی ہے؟ نقل کیا گیا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے سامنے کسی نے یزید بن معاویہ کی عظمت و بزرگی بیان کی۔ یہ بات عمر بن عبدالعزیز کو بہت گراں گزری اور انہوں نے حکم دیا اس شخص کو فوری طور پر بیس کوڑے لگائے جائیں۔ یزیدجبکہ ایک فاسق اور شرابی تھا، نے حسین ابن علی کو جو رسول (ص)کے لختِ جگر اور نواسے ہیں، شہید کیا۔ کیا ان تمام جرائم کے باوجود جو یزید بن معاویہ نے اپنی چار سالہ حکومت کے دوران کئے ، یہ جائز ہو گا کہ اسے رسولِ خدا کے بارہ جانشینوں میں سے ایک قرار دیا جائے؟

سیوطی نے تاریخ الخلفا میں اس کے ایسے فسق و فجور اور جرائم بیان کئے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے باعثِ شرم ہے کہ ایسوں کو خلیفہ المسلمین پکاریں ۔لہذا اس تفسیر کا یا روایت کا ضعیف ہونا ثابت ہے ۔

ب: خلیفہ کی وضاحت میں جو ایک اور تفسیر روایت کی جاتی ہے وہ یہ کہ ضروری نہیں یہ تمام خلفا تواتر سے ایک کے بعد ایک آئے ۔ بلکہ ان میں سے بعض جو خلفائے چہارگانہ تھے، جو ابتدا میں آئے تھے، حسن ابن علی ( نواسہِ رسول)، معاویہ، ابنِ زبیر اور عمر بن عبدالعزیز ۔ ان کے بعد کے چار خلفا ہیں اور چار افراد اور ہیں جو قیامت سے پہلے آئیں گے اور حکومت کریں گے ۔ ۔ ۔ لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی مکرم سے منسوب روایات میں ان بارہ خلفا کا مسلسل اور ایک کے بعد ایک کا آنا ثابت ہے۔ بغیر کسی شک و شبہ کے یہ تفاسیر مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں ۔جو اصل حدیث کو مشکوک بنا رہی ہیں ۔

معروف مفسر قرآن ابنِ کثیر نے اپنی کتاب میں واضح کہا ہے ۔ و معنی هذاالحدیث البشارة بوجود اثنی عشر خلیفه صالحاً یقیم الحق و تعدل فیهم... والظاهر ان منهم المهدی المبشر به فی الاحادیث الواردة بذکره ۔۔۔۔۔۔خلفائے اثنا عشر کے بارے میں جو احادیث روایت کی گئیں ان میں یہ بات وضاحت سے آئی ہے کہ یہ خلفا صالح بندے اور حق و انصاف قائم کرنے والے ہوں گے ۔ان بارہ خلفا میں ایک مھدی ہیں جن کے بارے میں گوناگوں روایات میں نوید دی گئی ہے ۔

اسی طرح کتاب "بذل المجھو" جو شرح سنن ابو داؤد ہے، میں بہت سے اقوال بیان کرنے کے بعد خلفائے اثنا عشر کے بارے میں لکھا ہے ۔ ۔ و آخرھم الامام المھدی و عندی هذا هو الحق۔ یقیناً آخری خلیفہِ اثنا عشر حضرت امام مہدی ہیں اور میں اس قول کو برحق مانتا ہوں ۔

حتی کہ صحیح مسلم میں آیا ہے کہ رسولِ پاک نے فرمایا:

يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي خَلِيفَةٌ يَحْثِي الْمَالَ حَثْيًا لَا يَعُدُّهُ عَدَدً

(صحيح مسلم الحديث رقم 2913)

میری امت کے درمیان آخری زمانے میں ایک خلیفہ ہوگا جو بہت زیادہ مال و دولت بخشے گا اور اسے شمار بھی نہ کرے گا ۔

اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اس حدیث میں بھی کلمہ " خلیفہ " استعمال کیا گیا ہے ۔

دوسری طرف شیعہ روایات میں ان بارہ خلفا کا ذکر آیا ہے ۔ جنہیں شیعوں کے بارہ اماموں پر منطبق کیا گیا ہے ۔ ان میں سے پہلے علی ابن ابی طالب پھر حسن پھر حسین اور اگلے نو امام، امامِ حسین کی اولاد میں سے ہیں جن کا آخری خلیفہ مہدیِ موعود ہے ۔اور یہ سب ہی متواتر اور ایک دوسرے کے بعد آئے ہیں ۔ یہ روایت بارہ خلفا کے عدد کے مطابق بھی صحیح اترتی ہے ۔ مذکورہ روایات کے ان بارہ اماموں پر تطبیق، اس روایت اور اس ہندسے کے اعتبار کے موجب ہیں۔ یعنی یہ اس بات کا باعث ہوگا کہ خلافت بارہ افراد پر منحصر رہے ۔

ضروری ہے کہ ہم بہت سے اہلِ سنت کے محققین کے بیان پر غور کریں، جنہوں نے بتایا : بارہ خلفا سے مراد یہی شیعوں کے بارہ امام ہیں جو اہلِ بیتِ نبی(ص) صسے ہیں ۔ان کو اموی حکمرانوں پر منطبق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے اور ان میں سے اکثر نے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ اسی طرح عباسیوں پر بھی ان بارہ افراد کا انطباق نہیں ہوتا کہ یہاں بھی وہی عذر پیش آتا ہے ۔پس ان خلفائے اثنا عشر سے مراد اہلِ بیتِ نبی(ص) سے تعلق رکھنے والے یہی بارہ امام ہیں جو علی سے شروع اور مہدی پر ختم ہوتے ہیں ۔ اور یہ سب کے سب عادل اور پارسا تھے / ہیں ۔

صحاح ستہ میں مھدویت سے متعلق مخصوص احادیث
حسب و نسب ِمہدی کے بارے میں حدیثیں

ہر چیز کی شناخت اس کے اصل اور اس کے حسب و نسب سے ہوتی ہے ۔امام مھدی کی شخصیت جو ایک اہم ترین موضوع ہے ۔ جنہیں رسولِ اکرم(ص)نے بارہ خلفائے راشدین میں شمار کیا ہے اور امت کو ان کے (ظہور کی) نوید دی ہے ۔اس موضوع کی شناخت کے لئے بھی ضروری ہے کہ امام کا حسب و نسب واضح ہو ۔

  • مھدی عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں۔
    ابنِ ماجہ سنن میں اپنے حوالوں کی رو سے انس بن مالک سے اور اس طرح رسولِ خدا سے روایت کرتے ہیں:

    نَحْنُ وَلَدَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ سَادَةُ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنَا و َحَمْزَةُ وَ عَلِيٌّ وَ جَعْفَرٌ و َالْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ الْمَهْدِيُّ

    (سنن ابن ماجه الحديث رقم 4087)

    ہم عبدالمطلب کی اولاد اہلِ بہشت کے سردار ہیں ۔ میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین، مہدی اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مہدی رسولِ پاک کے دادا عبدالمطلب کی نسل سے ہیں ۔

  • مھدی، نسلِ پیغمبرِ اکرم سے ہیں ۔
    ابو سعید خدری سے مروی ہے، فرمایا اللہ کے رسول (ص) نے

    الْمَهْدِيُّ مِنِّي أَجْلَى الْجَبْهَةِ أَقْنَى الْأَنْفِ يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَ ظُلْمًا يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ

    (سنن أبي داود الحديث رقم 4285)

    مہدی مجھ سے ہے، اس کی پیشانی گشادہ و روشن، ستواں ناک ہے ۔ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا ۔اسی طرح جیسے اس سے پہلے ( یہ زمین) ظلم و ستم سے بھری ہو گی، وہ سات سال تک زمین پر حکمرانی کرے گا ۔

  • ۔ مہدی اہلِ بیت پیامبر (ص) سے ہے
    صحاح ستہ کی کتابوں سنن ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں اس سے متعلق متعدد روایات موجود ہیں کہ رسولِ خدا نے واضح طور پر مہدی کو اہلِ بیت میں سے فرمایا ہے جن میں سے بہت سی سند کے اعتبارسے متقن و معتبر ہیں ۔
    • ۔ ابوداؤد اپنی سنن میں ابی طفیل کے حوالے سے حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ خدا نے فرمایا :

      لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنْ الدَّهْرِ إِلَّا يَوْمٌ لَبَعَثَ اللَّهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا

      (سنن أبي داود الحديث رقم 4283)

      اگر اس دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہے تب بھی اس ایک دن میں اللہ تعالیٰ میرے اہلِ بیت میں سے ایک مرد کو بھیجے گا جو زمین کو عدل و داد سے معمور کر دے۔ جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی ۔

    • ۔ ترمذی اپنی سنن میں عاصم سے، پھر زر سے اور پھر عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم نے فرمایا:

      لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي

      (سنن الترمذي الحديث رقم 2230)

      یہ دنیا ختم نہ ہو گی جب تک میرے اہلِ بیت میں سے ایک مرد جس کا نام میرے نام پر ہو گا، عرب پر حکومت قائم کر لے۔

    • ۔ ترمذی میں ہی ایک اور جگہ عاصم، زر اور پھر عبداللہ ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ رسولِ پاک نے فرمایا

      يَلِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي

      (سنن الترمذي الحديث رقم 2231)

      میرے اہلِ بیت میں سے ایک مرد آنے والا ہے جو میرا ہم نام ہو گا ۔

    • ۔ ابنِ ماجہ اپنی سنن میں اپنی اسناد کے مطابق محمد بن الحنفیہ نے کہا، حضرت علی نے کہا کہ رسولِ خدا نے فرمایا :

      الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ

      (سنن ابن ماجه الحديث رقم 4085)

      مھدی ہم اہلِ بیت میں سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے امر کو رات بھر میں درست کر دے گا ۔

    • ۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ میں آیا ہے:

      عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و َسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ فَلَمَّا رَآهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ وَ تَغَيَّرَ لَوْنُهُ قَالَ فَقُلْتُ مَا نَزَالُ نَرَى فِي وَجْهِكَ شَيْئًا نَكْرَهُهُ فَقَالَ إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ اخْتَارَ اللَّهُ لَنَا الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا و َإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ بَعْدِي بَلَاءً وَ تَشْرِيدًا وَ تَطْرِيدًا حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَهُمْ رَايَاتٌ سُودٌ فَيَسْأَلُونَ الْخَيْرَ فَلَا يُعْطَوْنَهُ فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ فَيُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا فَلَا يَقْبَلُونَهُ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا كَمَا مَلَئُوهَا جَوْرًا فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَأْتِهِمْ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ

      (سنن ابن ماجه الحديث رقم 4082)

      عبداللہ روایت کرتے ہیں ۔جب ہم رسولِ خدا کی بارگاہ میں شرفیاب ہوئے ۔ جوانانِ بنی ہاشم کا ایک گروہ وہاں سے گزر رہا تھا ۔جیسے ہی نبی اکرم نے انہیں دیکھا، ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور چہرہِ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا ۔ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ہماری دعا ہے کہ آپ کا چہرہ کبھی غمناک اور متاثر نہ دیکھیں ۔فرمایا! ہم ایسا خاندان ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بجائے آخرت کا ہمارے لیے انتخاب کیا ہے ۔اور یہ بھی کہ میرے گزر جانے کے بعد، میرے اہلِ بیت مصیبت، دربدری، پریشانی اور بے وطنی کا سامنا کریں گے ۔یہاں تک کہ مشرق سے ایک قوم سیاہ پرچم لے کر آئے گی ، خیر و بھلائی طلب کرے گی مگر انہیں وہ( بھلائی) نہیں دی جائے گی ۔وہ(اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے) مقابلہ کریں گے ان کی مدد کی جائے گی اور وہ کامیاب ہو جائیں گے ۔پس جو کچھ انہوں نے طلب کیا ہو گا وہ انہیں دیا جائے گا مگر وہ قبول نہیں کریں گے جب تک وہ میرے اہلِ بیت میں سے (آنے والے )اس مرد کے سامنے سر تسلیم خم نہ کر لیں ۔ وہ دنیا کو عدل و داد سے بھر دے گا اسی طرح جیسے دوسروں نے اسے ظلم و ستم سے بھر دیا ہے ۔ پس تم میں سے جو کوئی بھی اس زمانے کو پائے وہ ان لوگوں کی طرف دوڑے چاہے سینے کے بل برف پر رینگ کر جانا پڑے ۔

  • ۔ مہدی از اولادِحضرتِ فاطمہ
    صحاحِ ستہ کی روایات یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہیں ۔
    • ۔ ابن ماجہ اپنی سنن میں لکھتے ہیں سعید بن مسیب نے کہا، امِ سلمی زوجہِ رسول نے بتایا، رسولِ خدا نے فرمایا:

      الْمَهْدِيُّ مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ

      (سنن ابن ماجه الحديث رقم 4086)

      مھدی فاطمہ کے بیٹوں میں سے ہے۔

    • ۔ ابو داؤد اپنی سنن میں سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ امِ سلمی نے بتایا، رسولِ خدا نے فرمایا :

      الْمَهْدِيُّ مِنْ عِتْرَتِي مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ

      (سنن أبي داود الحديث رقم 4284)

      مہدی میرے خاندان اور فاطمہ کے بیٹوں میں سے ہیں ۔

حضرت امام مہدی کے نبی (ص)کا ہم نام ہونے کے بارے ميں حدیث

ترمذی سنن میں عبداللہ ابنِ مسعود سے مروی ہے، اللہ کے رسول نے فرمایا:

لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي

(سنن الترمذي الحديث رقم 2230)

یہ دنیا ختم نہ ہو گی جب تک میرے اہلِ بیت میں سے ایک مرد جس کا نام میرے نام پر ہے کہ وہ عرب پر حکومت کرے ۔

ترمذی ہی سنن میں ایک دوسری سند لے کر لکھا ہے ۔عبداللہ ابن مسعود کی روایت ہے، رسولِ خدا نے فرمایا :

يَلِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي

(سنن الترمذي الحديث رقم 2231)

میرے اہلِ بیت میں سے ایک مرد آنے والا ہے جو میرا ہم نام ہو گا ۔

یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت مہدی کا نام نبی اکرم کے نام پر "محمد" ہو گا ۔

دیگر اھم احادیث
  • ۔ سنن ترمذی میں آیا ہے :

    عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَشِينَا أَنْ يَكُونَ بَعْدَ نَبِيِّنَا حَدَثٌ فَسَأَلْنَا نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ فِي أُمَّتِي الْمَهْدِيَّ يَخْرُجُ يَعِيشُ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا أَوْ تِسْعًا زَيْدٌ الشَّاكُّ قَالَ قُلْنَا وَمَا ذَاكَ قَالَ سِنِينَ قَالَ فَيَجِيءُ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَيَقُولُ يَا مَهْدِيُّ أَعْطِنِي أَعْطِنِي قَالَ فَيَحْثِي لَهُ فِي ثَوْبِهِ مَا اسْتَطَاعَ أَنْ يَحْمِلَهُ

    (سنن الترمذي الحديث رقم 2232)

    رسول کے مشہور صحابی ابو سعید خدری فرماتے ہیں : ہمیں یہ خوف اور پریشانی لاحق ہوئی کہ نبی اکرم کے بعد کیسے ناگوار حالات و حادثات پیش آئیں گے ۔ ( ہماری اس پریشانی کے باعث) رسولِ پاک سے ہم نے سوال کیا ، رسول نے فرمایا : میری امت میں ( امام) مہدی کا ظہور ہو گا ۔ اور وہ پانچ، سات یا نو سال تک زندہ رہیں گے ۔( تردید از ناقل حدیث زید است) ۔ ۔ ۔راوی سے سوال کیا گیا ہے کہ آخر مہدی کی عمر کتنے سال ہو گی؟ ان میں سے کون سی بات صحیح ہے؟ تو کہا گیا، ان کی عمر چند سالوں پر محیط ہے ۔ پھر رسول نے فرمایا : اسی ( مہدی )کے پاس کوئی شخص آ کر مدد مانگے گا اور کہے گا ۔ اے مہدی مجھے عطا کرو، وہ اس کو اتنا سونا چاندی اس کے دامن میں ڈال دیں گے جو وہ نہ اٹھا پائے گا ۔

  • ۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ سے نقل، رسولِ پاک نے کہا :

    لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ تَعَالَ صَلِّ لَنَا فَيَقُولُ لَا إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ

    (صحيح مسلم الحديث رقم 156)

    میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ قیامت تک راہِ حق میں جہاد کرتا رہے گا ۔پس حضرت عیسی ابنِ مریم کا ظہور ہو جائے گا ۔اور مومنین کے اس گروہ کا امیر حضرتِ عیسی سے کہے گا ۔ آئیے ہمارے لئے نماز کی اقامت کیجیے ( یعنی امامت کیجیے) حضرت عیسی جواب دیں گے ۔نہیں تم میں سے بعض، بعض دوسروں پر امیر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عزت بخشی ہے ۔

آخرالذکر حدیث سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں :

اول: حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت مسلمانوں میں سے ایک مرد ان کے امور کا والی ہو گا۔

دوسرا: یہ کہ وہ امیر حضرت عیسیٰ کو جماعت کی امامت کی دعوت دے گا۔جو ان کے با ایمان اور صالح ہونے کا ثبوت ہے۔ ۔ ۔ اگرچہ اس روایت میں "مہدی" کا لفظ صریحاً نہیں آیا۔ مگر "مہدی کی ھدایت شدہ کی صفت" اس میں واضح طور پر نمایاں ہے ۔

تیسرا: یہ کہ حضرت عیسیٰ کی جانب سے اس امیر کی موجودگی میں اقامتِ نماز کو انہی کے سپرد کرنا ، امیر کی برتری کو ثابت کرتا ہے۔ کیونکہ مفضول کی فاضل اور افضل پر برتری ایک قبیح امر ہے ۔

چوتھا: یہ کہ یہ روایت "امیر " کا ذکر ، وضاحت سے کرتی ہے اور یہ امیر بجز حضرت مہدی کوئی شخص نہیں ہوسکتا۔

یہ جان لینا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ آخری زمانہ میں نزول کریں گے تاکہ ( امامت کے اس سلسلے کو)حضرت مہدی وارث و علمدارِ اسلام کے سپرد کریں ۔ اور دنیا بھر کے عیسائیوں کو امام مہدی کی پیروی کرنے اور قبولِ اسلام کے ذریعے دین کے اس رشتے کو مربوط بنائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے امام مہدی کو جماعت کی امامت کے لئے مقدم شمار کریں گے اور ان کو مقتدا بنائیں گے ۔